سعودی عرب نے اسرائیل کے بارے میں اپنا موؑقف واضح کردیا

 

’سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم نہیں کرے گا‘

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعووی مملکت کا معاہد ابراہیم میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں، فلسطینی ریاست کا قیام لازمی کرنا ہوگا


متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے گزشتہ سال اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے امریکا کے وائٹ ہاؤس میں’معاہدہ ابراہیم‘ طے پایا تھا جس کے تحت امارات ، بحرین اور اسرائیل آپس میں سفارتی، تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعلقات قائم کریں گے اور ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کریں گے۔


اس سمجھوتے کے بعد یہ خبریں بھی سامنے آنے لگی تھیں کہ سعودی قیادت پر بھی امریکا کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرے۔ تاہم سعودی قیادت کی اس حوالے سے وقتاً فوقتاً تردید سامنے آتی رہی۔ اس حوالے سے سعودی عرب کا ایک اور واضح بیان سامنے آ گیا ہے۔ العربیہ نیوز کے مطابق سعودی وزیر برائے امور خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ مملکت کا اس وقت اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ابراہیم میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی پوزیشن واضح ہے اور فلسطینی ریاست کا قیام مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے حصول کا بہترین راستہ ہے۔وزیر خارجہ نے ایسپین سیکیورٹی فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اسرائیل تنازع کو پائیدار ، طویل مدتی طریقے سے حل کیے بغیر خطے میں حقیقی پائیدار سلامتی ممکن نہیں۔ فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔


گفتگو کے دوران سعودی وزیرخارجہ کہا کہ ایران "منفی سرگرمیوں" جیسے کہ یمن میں حوثیوں کو عسکری امداد کی فراہمی اور خلیج فارس میں جہاز رانی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔شہزادہ فیصل نے کہا کہ مملکت بائیڈن انتظامیہ کی ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کے "طویل اور مضبوط" ورژن کی خواہش کی مخالفت نہیں کرتی۔


تاہم ایران کو یقینی بنانا ہوگا کہ تہران جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل نہیں کر رہا۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایران خطے کی سلامتی میں شامل ہوتا ہے تو ریاض ایران کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اگرایران خطے کے ممالک کیساتھ نارمل انداز میں برتاوٴ کرتا ہے، ملیشیاوٴں کو سپورٹ نہیں کرتا ، مسلح گروہوں کو ہتھیار نہیں بھیجتا اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے جوہری پروگرام کو ترک کرتا ہے توہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔


source credit: https://www.urdupoint.com/

Comments