السلامُ علیکم کہیے، دل جیت لیجیے!

 


دنیا کی ہر مہذّب قوم میں اس کا رواج چلا آرہا ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کے لیے ایک دوسرے سے کہیں۔ چناں چہ اسی حقیقت کے پیش نظر قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے باہمی موانست و اظہارِ محبت کے لیے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ’’سلام‘‘ کرنے اور دوسرے مسلمان کا پہلے مسلمان کے سلام کا جواب دینے کا حکم صادر فرمایا ہے۔

قرآن مجید میں ہے، مفہوم: ’’اور جب تم کو کوئی (مشروع) سلام کرے تو تم اس (سلام) سے اچھے الفاظ میں سلام کرو۔ (یعنی جواب دو) یا (جواب میں) ویسے ہی الفاظ کہہ دو۔‘‘

قرآن مجید میں لفظ سلام کے لیے ’’تحیہ‘‘ کا لفظ مذکور ہے جس کے لفظی معنی ہیں کسی کو ’’حیاک اﷲ ‘‘ کہنا۔ (یعنی اﷲ تعالیٰ تم کو زندہ رکھے) چوں کہ زمانہ قبل از اسلام عرب لوگوں کی عادت یہ تھی کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو ایک دوسرے کو ’’حیاک اﷲ‘‘ یا ’’انعم اﷲ بک عینا‘‘ یا ’’انعم صباحا‘‘ وغیرہ الفاظ سے سلام کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس ’’ِتحیہ‘‘ کو بدل کر ’’السلام علیکم‘‘ کہنے کا طریقہ جاری کیا، جس کے معنی ہیں: ’’تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامت رہو۔‘‘

 

 

source credit: https://www.express.pk/

Comments